سفارتکاری سے عراق میں دہشتگردوں کی موجودگی کاخاتمہ نہیں ہوا تو فوجی طاقت کا استعمال کرنا پڑا: ایران

نیویارک، ارنا- اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے سلامتی کونسل کے سربراہ کے نام میں ایک خط میں دہشتگردوں کیخلاف فوجی طاقت کے استعمال کی وجوہات کی وضاحت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ عراق کے شمالی علاقوں میں سفارتکاری سے دہشتگردوں کا خاتمہ نہیں ہوا لہذا ایران کو فوجی طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے اس بات پر زور دیا کہ ایرانی قومی اور قومی سلامتی کیخلاف دہشتگردوں کے تخریبکارانہ اقدامات اور اس حوالے سے ایران کیجانب سے دی گئی متعدد وارننگ پر عدم توجے کے پیش نظر ایران کے پاس اپنے حق کے حصول اور  دہشتگردوں کے حملوں کی جوابی کاروائی دینے کا کوئی حل نہیں تھا۔

اقوام متحدہ میں تعینات ایرانی مشن نے سلامتی کونسل کے سربراہ کے نام میں ایک خط میں عراق کے شمالی علاقوں میں دہشتگرد گروہوں کے اقدامات پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کیخلاف ایران کی فوجی کاروائی کی وجوہات کا ذکر کیا۔

اس خط میں کہا گیا ہے کہ ایران 4 دہائیوں سے زائد دہشتگردی کا شکار ہے اور وہ اسی عرصے کے دوران دہشتگردی کا شکار سب سے بڑی قربانیوں میں سے ایک ہے۔ عراق کے شمالی علاقوں میں دہشتگرد اور علیحدہ پسندہ گروہ جیسے کردستان ڈیموکریٹک پارٹی، کوملہ اور پژاک، عراق کی سرزمین کو ایرانی شہریوں اور ملک کے بینادی ڈھانچے کیخلاف دہشتگردانہ اور مسلح حملات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ صرف 2016 سے اب تک ان گروہوں نے اندروں ملک اور ایرانی سرحدوں کے قریب 49 دہشتگردانہ حملے کیے ہیں جن کے نتیجے میں 24 افراد شہید اور 32 زخمی ہوگئے ہیں۔ تصدیق شدہ معلومات کے مطابق ان تمام حملوں کی عراق کے شمالی علاقوں سے منصوبہ بندی کی گئی ہے اور ان کا نفاذ کیا گیا ہے۔

 اقوام متحدہ میں تعینات ایرانی مشن نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کیجانب سے عراق کے شمالی علاقوں کے عہدیداروں کو متعدد وارننگ دینے کے باوجود انہوں نے بین الاقوامی قوانین کے فریم ورک کے اندر، ان دہشتگردوں کیخلاف فیصلہ کن اقدام نہیں کیا۔ اسی صورتحال اور حالیہ دہشتگردانہ حلموں کے پیش نظر، ایران کے پاس بین االاقوامی قوانین کے فریم ورک کے اندر اپنے عوام، قومی سلامتی، قومی خودمختاری اور ارضی سالیمت کے تحفظ کیلئے جوابی کاروائی دینے کے سوا کوئی حل نہیں تھا۔

ایرانی مشن نے عراق کی خودمختاری، آزادی، اتحاد اور ارضی سالمیت کا احترام کرنے اور پابند رہنے پر زور دیتے ہوئے عراقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کے ایک ذمہ دار رکن کے طور پر، بین الاقوامی ذمہ داریوں کی بنیاد پر، بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر عراق کے پورے علاقے پر اپنی نگرانی کی توسیع دے اور اور مسلح اور دہشت گرد گروہوں کو پناہ دینے سے روکے جو شہریوں، قومی سلامتی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کیخلاف مجرمانہ دہشت گردانہ کارروائیوں کا منصوبہ رکھتے ہیں۔

ایرانی مستقل مندوب نے کہا اسلامی جمہوریہ ایران نے عراق کی خودمختاری اور ارضی سالمیت پر اپنے پختہ یقین اور عزم کا اظہار کرتے ہوئے اس ملک کی حکومت کی درخواست کے مثبت جواب اور حمایت کے ساتھ داعش اور اس سے وابستہ قوتوں سے نمٹنے میں مدد کی۔ اور اس سلسلے میں، ایران کے اعلی کمانڈر شہید جنرل شہید سلیمانی نے داعش کو شکست دینے اور عراق کے عوام اور حکومت کی مدد کرنے میں بے مثال کردار ادا کیا۔ اس حد تک کہ عراق کے شمالی علاقے کے حکام نے انہیں صحیح طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہیرو اور امن کا جنرل قرار دیا۔ جنرل سلیمانی کا بزدلانہ قتل داعش اور دیگر تنظیموں کے فائدے کے لیے تھا جنہیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے اس خط کے آخر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سربراہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس خط کو بطور سلامتی کونسل کی دستاویز کے اشاعت کرے۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu

متعلقہ خبریں

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .